وَيَطُوْفُ عَلَيْـهِـمْ غِلْمَانٌ لَّـهُـمْ كَاَنَّـهُـمْ لُـؤْلُـؤٌ مَّكْنُـوْنٌ(الطور: 24)
(ترجمہ)اور ان کے پاس لڑکے ان کی خدمت کے لیے پھر رہے ہوں گے، گویا وہ غلافوں میں رکھے ہوئے موتی ہیں۔وَيَطُوْفُ عَلَيْـهِـمْ وِلْـدَانٌ مُّخَلَّـدُوْنَ اِذَا رَاَيْتَـهُـمْ حَسِبْتَـهُـمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا۔(الدھر:19)(ترجمہ)اور ان کے پاس سدا رہنے والے لڑکے (خادم) گھومتے ہوں گے، جو تو ان کو دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔
قارئین کرام! ان دونوں آیتوں میں آسمانی جنت کے بچوں کو” غلافوں میں رکھے ہوئے موتیوں “اور “بکھرے ہوئے موتیوں” سے تعبیر کیا گیا ہے۔مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جنت اور اس کے اندر ہنستےبستے، کھیلتے کودتےاور شرابِ طہور پلاتے بچوں کے حسین مناظر سے کہیں زیادہ خوبصورت ، دلرباء،فرحت بخش اور ایمان افزاء وہ محافل ہوتی تھی جو مدینہ منورہ کی جنت(محفلِ نبویﷺ اور اس کے رنگ برنگ پھولوں یعنی ننھے صحابہ رضی اللہ عنہم کی صورت میں )نظر آتی تھیں۔سیرتِ رسول اکرم ﷺ کی اس شمع(آغوشِ پیمبرؐ) میں اسی زمینی بہشت اور اس کے حسین نظاروں کا تذکرہ ہے۔جن کو ساتوں آسمان ، زمینیںاور ان کی مخلوقات قابلِ رشک سمجھتی ہیں۔
Reviews
There are no reviews yet.