دعوت و تبلیغ کے نام سے پوری دنیا میں ایک محنت پورے اخلاص کے ساتھ جاری ہے، جس کے ثمرات و فوائد روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ ہر دور میں اہل علم نے اپنی دیگر دینی و اصلاحی مصروفیات کے ساتھ اپنے بیانات، تحریروں اور اس جماعت کے ساتھ وقت لگا کر اس عظیم عالمی فکر رکھنے والی جماعت کی تائید کی۔
ادھر کچھ “کرم فرماؤں” نے کفروشرک نظر انداز کر دیا اور اس داعی الی الدین جماعت کی بیخ کنی کی طرف رخ کر لیا۔ اور عوام و خواص کو اس دینی فریضہ اور علمی بیداری کی تحریک سے دور رکھنے کی مساعی لاحاصل شروع کردیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ، قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، اور مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد امین اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ و دیگر اہل علم صاحبان قلم نے رسائل اور کتب کے ذریعہ ان مہربانوں کے سوالات کے جواب دے کر اس عظیم فکری و علمی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی۔
جماعت کی مخالفت کے لئے جو لوگ ادھار کھائے بیٹھے تھے ان پر تو کیا اثر ہونا تھا لیکن جوابات سے اخلاص اور اصلاح کے حاملین حضرات کو تسلی ہوگئی اور وہ آہستہ آہستہ اس عظیم تحریک کا ممبر بن گئے۔
رقم نے دیکھا ہے اور اپنے مخلص احباب سے بھی سنا ہے کہ اعتراضات کرنے والوں میں اہل بدعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کیونکہ یہ سنت رسول ﷺ کو عام کرنے کی تحریک تھی۔ ان کے علاوہ اہل علم میں معترفین کی ایک کثیر تعداد وہ ہے جو خود اپنے سرپرست حضرات کے جماعت میں لگنے کی وجہ سے دینی تعلیم کی طرف آئی اور انہوں نے محسن جماعت کو تختہ مشق بنا لیا۔ لیکن کیونکہ جماعت کی تشکیل اخلاص پر تھی وہ دن بدن ترقی کرتی رہی اور دنیا کے ہر کونے سے جماعتوں کے آنے اور جانے کا سلسلہ شروع رہا۔
اعتراضات کے جوابات کی غالبا پہلی تحریری کوشش حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ علیہ کی کتاب “تبلیغی جماعت پر عمومی اعتراضات اور ان کے جوابات ہے۔ بلاشبہ کتاب بڑی مقبول ہوئی۔ اس کتاب کے بہت سے ایڈیشن نکل گئے، لیکن پہلی کتاب کے عکس در عکس طباعت کی وجہ سے الفاظ کافی بے رونق نظر آنے لگے۔
دوسرے عنوانات کم ہونے کی وجہ سے جدید کتب کا عادی نوجوان اسے مشکل سمجھنے لگا۔ بعض اہل علم نے بھی اسے ایک مضمون قرار دیا حالانکہ یہ کتاب حضرت شیخؒ کے علوم کی اور عالمی تبلیغی ایمانی تحریک کی معلومات کے استحضار کا بین ثبوت ہے۔
تیسرے حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جماعت پر اعتراضات ہوئے ان کے جوابات حضرت نے اس طرح دیا کہ آج تک کافی ہے۔ اور غور سے کتاب کو سمجھ لیا جائے تو بہت سے آئندہ ہونے والے سوالات کے جوابات بھی اسی میں مل جائیں گے۔
اس وقت کی ضرورت کے پیش نظر حضرت نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا مضمون بھی حضرت شیخ الحدیث کی کتاب میں شامل کر دیا گیا۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے جوابات جو انہوں نے “آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں بڑی بصیرت افروزی سے دیے ہیں، ان کو بھی خاص ترتیب کے ساتھ شاملِ اشاعت کیا جا رہا ہے۔ ان جوابات کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں ایسے مسائل کا حل بھی موجود ہے جو جماعت میں چلنے والے احباب کو پیش آتے رہتے ہیں۔
احباب کی خواہش ہوئی اوربعض دوستوں نے حکما بھی کہا اور خود مرتب نے بھی محسوس کیا حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ علیہ نے ان کی جواہرپاروں اور آپ تصنیف کی ترتیبِ نو بھی کر دی جائے، جس سے کتاب کے مضامین کو سمجھنے میں آسانی ہو اور جدید طرز کتاب سے مزین کر کے اچھے کاغذ پر چھاپا جائے۔
دوسری خاص ضرورت محسوس کی گئی کہ ہمارے اہل حدیث حضرات نے بھی جماعت پر طبع آزمائی شروع کر دی ہے اور کچھ ان کی خدمت میں بھی عرض کر دیا جائے اور جماعت میں چلنے والے احباب کو بھی اعتراضات کا حقیقت کا علم ہو جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امین ملت مولانا محمد امین اوکاڑوی کے علوم سے استفادہ کیا گیا۔ جو بحمداللہ اس بیماری کے علاج میں صنعت کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھیں دونوں جماعتوں تبلیغی جماعت اور جماعت اہل حدیث میں رہنے کا موقع ملا اور انہوں نے دونوں کو قریب سے دیکھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ پر کفار کے اعتراضات کا تذکرہ کر کے جوابات دیے ہیں۔ تو گویا یہ سنتِ الہی ہے کہ داعی پر اٹھنے والے سوالات کا مسکت جواب دیا جائے، تاکہ حجت تمام ہو۔
آخری گزارش اپنے باتوفیق قارین سے یہ کرنی ہے کہ معترض جواب سن کر بھڑک جاتا ہے، اپنی شکست محسوس کرتا ہے۔ اور سچ ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے۔ اس لیے الجھنے کی ضرورت نہیں افہام و تفہیم کی فضا میں یہ کتاب پڑھنے کے لئے دیں کہ اس کتاب کا خود کو مطالعہ اور ضرورت پڑنے پر اس انداز سے بات کو سامنے رکھیں کہ مناظرانہ کیفیت پیدا نہ ہو جس کو سنبھالنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے۔
جماعت کے اہل و حل و عقد کا یہ نظریہ ہے کہ پیار محبت کی فضا نہ توڑی جائے اور کسی طرح وقت لگا کر کام کو دیکھ لینے کی انہیں دعوت دی جائے۔ بڑے حضرات کو سنا ہے کہ معترض ایک ہزار اعتراض بھی لایا ہے ان کا جواب یہ ہوتا ہے: بھائی یہ راستہ دیکھ کر چلنے کا نہیں، چل کر دیکھنے کا ہے۔
ہمارے اباجی ارشاد فاروق صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے تا وفات 19 اپریل 2002ء مکمل قواعد کے ساتھ کام میں جڑے رہے تھے وہ) فرماتے تھے کہ کچھ احبابِ جماعت نے بزرگوں سے عرض کیا کہ جماعت پر اعتراضات کے جوابات دیئے جاتے ہیں، ہمارے پاس اہل قلم موجود ہیں ہر ماہ رسالہ جاری ہوگا تو بہت سے سوالات کے جوابات ہوجائیں گے۔
حضرت ؒ نے فرمایا تم جواب دو گے پھر اس پر اعتراضات ہونگے، پھر جواب الجواب دو گے پھر یہ سلسلہ مزید طول اختیار کر جائے گا۔ اور معترض ایسے دور ہی رہے گا۔ مختصر یہ کہ ان حضرات نے اس رسالے میں کی اجازت نہ دی۔
الغرض جماعت کا مزاج اعتراض وجوابات ہرگز نہیں، البتہ یہ سلسلہ سب کے لئے مفید ہے۔ قارئین سے استدعا ہے اپنی دعاؤں میں مرتب، معاونین، ناشرین اور ان کے اساتذہ، والدین کو یاد رکھیں۔
(مولانا) محمد اسلم زاہدؒ
مدرس مدرسہ بیت العلوم۔ کھاڑک، لاہور۔
22 رجب 1324ھ، 2003ء۔
Reviews
There are no reviews yet.